وعدہ-تغافل

میں اس کے وعدہ کا اب بھی ، یقین کرتا ہوں

ہزار بار جسے ، آزما لیا میں نے

مخمور دہلوی

ترے وعدہ پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا

مرزا غالب

تجھے تو وعدۂ دیدار ، ہم سے کرنا تھا

یہ کیا کیا کہ ، جہاں کو امیدوار کیا

داغ دہلوی

کیا ہے آنے کا ، وعدہ تو اس نے

مرے پروردگار آئے نہ آئے

اختر شیرانی

ہیں ایسے بھی کچھ ، حسین وعدے

جو یاد کی بھول ، بن گئے ہیں

اعجاز صدیقی

کس کس کو ہائے تیرے تغافل کا دوں جواب

اکثر تو رہ گیا ہوں ، جھکا کر نظر کو میں

مجروح سلطانپوری

مجھے ہے اعتبارِ وفا لیکن

تمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے

اختر شیرانی

آنے کا وعدہ کر گئے ، آئے نہ پر ابھی

دورِ شباب ڈھل گیا ، پیری گزر چلی

اشوک ساہنی