حسرت و ارماں

کن حسرتوں سے دیکھ رہا تھا سوئے فلک

آنکھیں جھکا دیں خود ہی دلِ شرمسار نے

اطہر حسین

پوری نہ ہوگی ، حسرتِ دیدار دیکھ کر

سو بار دیکھئے انہیں ، سو بار دیکھ کر

مخمور دہلوی

ناکام حسرتو! مری ، ہمت کی داد دو

برباد کر کے بیٹھا ہوں ، آباد گھر کو میں

ہیرا لال فلک

دل کے تیور تو بجھے ، یاس کے چھینٹوں سے مگر

نہ بجھی آگ لگائی ہوئی ، ارمانوں کی

فانی بدایونی

حسرت سے دیکھتا ہوں ، جو ان کی طرف امیرؔ

کہتے ہیں دیکھو دیکھو ، کوئی دیکھتا نہ ہو

امیر مینائی

جذب ہو کر رہ گئیں ، دل میں ہزاروں حسرتیں

جس طرح دامن میں ہر اشکِ رواں گم ہو گیا

تلوک چند محروم

احسانؔ ایسا تلخ ، جوابِ وفا ملا

ہم اس کے بعد پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

احسان دانش

وائے حسرت! اب کوئی حسرت نہیں

دل ہے مدفن ، حسرتِ ناکام کا

اشوک ساہنی