موت-ازل-قضا

موت کیا اک لفظِ بےمعنی

جس کو مارا حیات نے مارا

جگر

موت اک ماندگی کا وقفہ ہے

یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

میر

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے

محمود خاں رامپوری

زندگی کیا ہے دم بہ دم چلنا

موت کیا ہے تھکن خیالوں کی

نامعلوم

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج تم ، کل ہماری باری ہے

میر حسن

اے ہجر!، وقت ٹل نہیں سکتا ہے موت کا

لیکن یہ دیکھنا ہے کہ مٹی کہاں کی ہے

کاظم علی ہجر

کلی کوئی جہاں پر کھل رہی ہے

وہیں اک پھول بھی مرجھا رہا ہے

جگر

موت بھی کیا ، ڈرائے گی ہم کو

موت میں بھی حیات پنہاں ہے

اشوک ساہنی