وفا-جفا

وفا جس سے کی بےوفا ہو گیا

جسے بت بنایا خدا ہو گیا

حفیظ جالندھری

لطف آنے لگا جفاؤں میں

وہ کہیں مہرباں نہ ہو جائے

امیر مینائی

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

تم نے تو خیر بےوفائی کی

فراق

باوفا کہہ کے بےوفا نہ کہو

کیوں بدلتے ہو اتنی پیاری بات

داغ دہلوی

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

مرزا غالب

ہم باوفا تھے اس لئے نظروں سے گر گئے

شاید انہیں تلاش کسی بےوفا کی تھی

نامعلوم

اس سے پہلے کہ بےوفا ہو جائیں

کیوں نہ اے دوست! ہم جدا ہو جائیں

فراز

اس کی جفائیں مجھ کو وفاؤں سے کم نہیں

اس کی خوشی میں خوش ہوں ، مجھے کوئی غم نہیں

اشوک ساہنی