زندگی-زیست-حیات

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

نامعلوم

مری زندگی تو گزری ، ترے ہجر کے سہارے

مری موت کو بھی پیارے ، کوئی چاہئے بہانہ

جگر

آج آنکھوں میں کاٹ دے شبِ ہجر

زندگانی پڑی ہے سو لینا

فراق

غرض کہ کاٹ دئے ، زندگی کے دن اے دوست

وہ تیری یاد میں ہوں ، یا تجھے بھلانے میں

فراق

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

میر درد

موت کا بھی ، علاج ہو شاید

زندگی کا ، کوئی علاج نہیں

فراق

زندگی کی دوسری کروٹ تھی موت

زندگی کروٹ بدل کر رہ گئی

فانی

اتنا غمِ حیات نے مایوس کر دیا

اب تو تمہاری یاد بھی آتی نہیں مجھے

اشوک ساہنی