اشک-آنسو

میرے دامن میں ہیں آنسو ، تیرے آنچل میں بہار

گل بنا سکتی ہے تو ، شبنم بنا سکتا ہوں میں

نامعلوم

محبت میں اک ایسا وقت بھی ، دل پر گزرتا ہے

کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں ، طغیانی نہیں جاتی

جگر مرادآبادی

جو آگ لگائی تھی تم نے ، اس کو تو بجھایا اشکوں نے

جو اشکوں نے بھڑکائی ہے ، اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

جزبی

تونے جس اشک پر ، نظر ڈالی

جوش کھا کر وہیں ، شراب ہوا

جگر مرادآبادی

غم تو ہو حد سے سوا ، اور اشک فشانی نہ ہو

اس سے پوچھو ، جس کا گھر جلتا ہو ، اور پانی نہ ہو

نامعلوم

مدت کے بعد اس نے کی جو ، لطف کی نگاہ

جی خوش تو ہو گیا ، مگر آنسو نکل پڑے

کیفی اعظمی

تم اسے شکوہ سمجھ کر ، کس لئے شرما گئے

مدتوں کے بعد دیکھا تھا ، تو آنسو آ گئے

فراق

زندگی میں ، اس قدر صدمے سہے

دل پگھل کر ، آنکھ سے بہنے لگا

اشوک ساہنی