شباب و پیری

ان کے عہدِ شباب ، میں جینا

جینے والے تجھے ہوا کیا ہے

اختر شیرانی

دل کے دل میں ہی رہ گئے ارماں

کم رہا ، موسمِ شباب بہت

میر

اے ہم نفس! نہ پوچھ جوانی کا ماجرا

موجِ نسیم تھی ، ادھر آئی ادھر گئی

تلوک چند محروم

مۓ رنگیں تھا ، سادہ پانی بھی

ہائے کیا چیز تھی ، جوانی بھی

جوش ملیح آبادی

دل سیاہ ہے ، بال سب اپنے پیری میں سفید

گھر کے اندر ہے اندھیرا اور باہر چاندنی

ناسخ

آنے کو وعدہ کر گئے ، آئے نہ پر ابھی

دورِ شباب ڈھل گیا ، پیری گزر چلی

اشوک ساہنی