زمانہ

ہم کو جھکا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

ہم سے زمانہ خود ہے ، زمانے سے ہم نہیں

جگر

رک گئیں گردشیں زمانے کی

ان کے ماتھے پہ جب شکن آئی

نامعلوم

ہم کو نہ مل سکا ، تو فقط اک سکونِ دل

اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا

آزاد

زمانہ ہے کہ ، گزارا جا رہا ہے

یہ دریا ہائے ، بہتا جا رہا ہے

جلیل مانکپوری

آئی تو ہیں ہزار ، زمانے کی گردشیں

ہم ہیں کہ پھر بھی ، خود کو سنبھالے ہوئے تو ہیں

راہی

مجھ سے اس بات پہ ناراض ہے دنیا ساری

میں نے کیوں کر کسی مظلوم کی غمخواری کی

اشوک ساہنی