آہ-فغاں-فریاد

خیر گزری کہ نہ پہنچی ترے در تک ورنہ

آہ نے آگ لگا دی ہے جہاں ٹھہری ہے

نامعلوم

آہ جو دل سے نکالی جائے گی

کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی

اکبر

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

اکبر

مری آہ کا تم اثر دیکھ لینا

وہ آئیں گے تھامے جگر ، دیکھ لینا

داغ دہلوی

اڑائی قمریوں نے ، طوطیوں نے ، عندلیبوں نے

چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرزِ فغاں میری

اقبال

اب مرے شہر کے ظالم ہیں اسی کوشش میں

ظلم سہتا رہوں ، فریاد نہ کرنے پاؤں

اشوک ساہنی