وعدہ-تغافل

امید تو بندھ جاتی ، تسکین تو ہو جاتی

وعدہ نہ وفا کرتے ، وعدہ تو کیا ہوتا

حسرت

وہ پھر وعدہ آنے کا ، کرتے ہیں یعنی

ابھی کچھ دنوں ہم کو جینا پڑے گا

آسی علدنی

اس کے ایفائے عہد تک ، نہ جئے

عمر نے ہم سے ، بےوفائی کی

میر

نہ کوئی وعدہ ، نہ کوئی یقیں ، نہ کچھ امید

مگر ہمیں تو ، ترا انتظار کرنا تھا

فراق

غضب کیا ترے وعدہ پہ ، اعتبار کیا

تمام رات قیامت کا ، انتظار کیا

مرزا غالب

وعدہ پہ اپنے خواب میں آتے تو وہ ضرور

مجھ کو ہی نیند آئے نہ ، تو ان کا ہے کیا قصور

اشوک ساہنی