اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
ہر زخم دل کو ہم نے سجایا ہے اس طرح
جگنو بنا دیا کبھی تارا بنا دیا
میں کس زباں سے شکر خدا کا ادا کروں
جس نے مجھے فراقؔ کا شیدا بنا دیا
اب کس کے در پہ جاؤں میں انصاف کے لئے
منصف نے قاتلوں کو مسیحا بنا دیا
جب بھی ہمیں محاذ سے آواز دی گئی
ہم نے لہو سے ہند کا نقشہ بنادیا
سارے جہاں کے درد کی آماجگاہ ہے
دل تو نے میرے پہلو میں اچھا بنادیا
اس کو خلوص کیسے نظر آئے گا اشوک
دشمن کو انتقام نے اندھا بنا دیا
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے
برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح
گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں