نگاہ-نظر-چشم

نظر اٹھائی تو دیکھا ، زمین تھی سر پر

نظر جھکائی تو ، پیروں میں آسمان ملا

شہباز ندیم

عقل بیچاری دلیلوں میں الجھ کر رہ گئی

ورنہ تاباںؔ اس نگاہِ مختصر ، میں کیا نہ تھا

تاباں غلام ربانی

ان نگاہوں نے تو کچھ کہا بھی نہیں

بات پہنچی ہے لیکن کہاں سے کہاں

فراق

تری نگاہ تو اس دور کی زکوٰۃ ہوئی

جو مستحق ہیں ، انہیں تک نہیں پہنچتی ہے

معین شاداب

لے اڑی تجھ کو نگاہِ شوق ، کیا جانے کہاں

تیری صورت پہ بھی اب ، تیرا گماں ہوتا نہیں

فراق

نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے

وہ کیوں نہ خوبیٔ قسمت پہ اپنی ناز کرے

حسرت موہانی

دل کے سب راز اشاروں سے بتا دیتا ہے

ہونٹ ہلتے نہیں آنکھوں سے صدا دیتا ہے

اعجاز انصاری

میکدہ میں نظر آتے ہیں سبھی جام بہ دست

مجھ کو آنکھوں سے پلاؤ ، تو کوئی بات بنے

اشوک ساہنی