حسرت و ارماں

کہہ دو ان حسرتوں سے ، کہیں اور جا بسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں

ظفر

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے

ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

ساحر لدھیانوی

حسرتوں کا ہو گیا ہے اس قدر دل میں ہجوم

سانس رستہ ڈھونڈھتی ہے ، آنے جانے کے لئے

جگر جالندھری

یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے

کہ میں اک نگاہِ کرم چاہتا ہوں

شمیم جےپوری

مفلسوں کا حال کیا ہے پوچھئے

حسرتوں نے عمر بھر پیچھا کیا ہے

نریش کمار شاد

وہ روٹھ گیا مجھ سے کہ دل روٹھ گیا ہے

اب دل میں کسی بات ارمان نہیں ہے

اشوک ساہنی