برق و نشیمن

نشیمن میں ہی کون سے سکھ ملے ہیں

جو روؤں نشیمن کو رہ کر قفس میں

نامعلوم

نشیمن پر مرے ، بارِ کرم ساری زمیں کا ہے

کوئی تنکا کہیں کا ہے ، کوئی تنکا کہیں کا ہے

اقبال

نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا

کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بیزار ہو جائے

اقبال

نہ پوچھو لذتیں کچھ خانماں برباد رہنے کی

نشیمن سینکڑوں ہم نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں

اقبال

خود آگ دے کے اپنے ،نشیمن کو آپ ہی

بجلی سے انتقام لیا ہے کبھی کبھی

سعید

باغباں تو ہی بتا کس نے اسے پھونک دیا

آشیاں میں نے بنایا تھا ، بڑی محنت سے

اشوک ساہنی