دکھ-درد

ذرہ ذرہ کانپ رہا ہے

کس کے دل میں درد اٹھا ہے

فراق

اگر دردِ محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا

نہ مرنے کا الم ہوتا ، نہ جینے کا مزہ ہوتا

چکبست

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

نامعلوم

اس سے بچھڑ کے جی کا زیاں کم نہیں ہوا

کچھ بڑھ گیا ہے دردِ نہاں کم نہیں ہوا

راشد حامدی

غم کی دیوار ، اداسی کے دئے ، درد کے طاق

ایسے گھر میں کوئی مہمان کہاں رہتا ہے

ساحل سحری

کتنا کوئی کسی کے بچھڑنے کا غم کرے

ہم بھی کسی کے واسطے روئیں گے کتنی دیر

قمر سنبھلی

جس جگہ دیکھو اس جگہ موجود

درد ، اللہ سا لگے ہے مجھے

نامعلوم

سمسّیا اور دکھ میں فرق بس اتنا سمجھ لیجئے

سمسّیا جائے گی یکتی سے ، دکھ صبر و تحمل سے

اشوک ساہنی