آسرا-سہارا

ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں

کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا

ساحر لدھیانوی

کچھ اعتبارِ وعدۂ فردا نہیں رہا

اب یہ بھی زندگی کا سہارا نہیں رہا

فانی

محبت میں سکوں محرومیوں کے بعد آتا ہے

کہ جب ہر آسرا مٹ جائے تب دل چین پاتا ہے

سحاب قضلباش

چند تنکوں کے سہارے کب تلک رہ پاؤگے

آؤ کشتی بھی ہے میرے پاس ، پتواریں بھی ہیں

اقبال آزر

فطرت کی مشیت بھی بڑی چیز ہے لیکن

فطرت کبھی بےبس کا سہارا نہیں ہوتی

ساحر لدھیانوی

تکوگے راہ سہاروں کی ، تم میاں کب تک

قدم اٹھاؤ کہ، تقدیر انتظار میں ہے

طابش مہدی

میں تو برباد ہو گیا ہوں مگر

اب کسی کو نہ آسرا دینا

تبسم نگم

دریائے محبت میں اک ڈوبنے والے کو

ہوتا ہے بہت یارو ، تنکے کا سہارا بھی

اشوک ساہنی