بہار-و-خزاں

خزاں کی رات تڑپ کے کاٹنے والے

تجھے بہار میں نیند آ گئی تو کیا ہوگا

نامعلوم

ہم چمن میں گئے بارہا لیکن

کبھی بہار سے پہلے کبھی بہار کے بعد

نامعلوم

مغرور نہ ہو فصلِ خزاں ، آ کے چمن میں

ایسے بھی ہیں کچھ پھول ، جو مرجھا نہیں سکتے

نامعلوم

دل کے معاملات میں ، سود و زیاں کی بات

ایسے ہیں جیسے موسم گل میں ، خزاں کی بات

عدم

ہمیں تو موسمِ گل نے بھی ، کر دیا رسوا

سنا ہے لوگ سلامت ، خزاں میں رہتے ہیں

قتیل شفائی

اس کی آمد سے مرے ، گھر میں آتی ہے بہار

وہ جو چاہے تو مرے گھر کو بھی ، ویرانہ بنا دے

اشوک ساہنی