آنکھ

نہ جانے بات کیا ہے ، تمہیں جس دن سے دیکھا ہے

مری آنکھوں سے یہ دنیا حسیں معلوم ہوتی ہے

ریاض خیرآبادی

اللہ! حسن دے تو حیا بھی ضرور دے

کس کام کی وہ آنکھ کہ جس میں حیا نہیں

ریاض خیرآبادی

آپ کی مخمور آنکھوں کی قسم

میری مےخواری ابھی تک راز ہے

مجاز لکھنوی

وہ چشمِ مست کتنی ، خبردار تھی عدمؔ

خود ہوش میں رہی ، ہمیں بدنام کر دیا

عدم

دل کے سب راز اشاروں سے بتا دیتا ہے

ہونٹ ہلتے نہیں آنکھوں سے صدا دیتا ہے

اعجاز انصاری

مےکدہ میں نظر آتے ہیں سبھی جام بہ دست

مجھ کو آنکھوں سے پلاؤ تو کوئی بات بنے

اشوک ساہنی