ناز-انداز-نزاکت-ادا

فرشِ مخمل پر بھی مشکل سے ، جنہیں آتا تھا خواب

خاک پر سوتے ہیں اب ، وہ پاؤں پھیلائے ہوئے

ظفر

اٹھانے کے قابل ہیں سب ناز تیرے

مگر ہم کہاں ، ناز اٹھانے کے قابل

محروم

یہ وفا کی سخت راہیں ، یہ تمہارے پائے نازک

نہ لو انتقام مجھ سے ، مرے ساتھ ساتھ چل کے

خمار

شانہ پہ زلف ، زلف میں دل ، دل میں حسرتیں

اتنا ہے بوجھ سر پہ ، نزاکت کہاں رہی

نامعلوم

نزاکت اس گلِ رعنا کی دیکھئے انشاؔ

نسیمِ صبح جو چھو لے ، تو رنگ میلا ہو

انشا

ہم ایسے ناتواں ، وہ ایسے نازک

اٹھائے کون پردہ درمیاں سے

نامعلوم

ذرا سی بات میں قصہ تمام ہوتا ہے

ادا سے دیکھ لو اک بار نیم جاں کی طرف

نامعلوم

اس کی رفتار کا انداز ، الٰہی توبہ

اک قیامت سی مرے دل پہ گزر جاتی ہے

اشوک ساہنی