کعبہ-بت-بت کدہ-بت خانہ

کعبہ کی ہے ہوس ، کبھی کوئے بتاں کی ہے

مجھ کو خبر نہیں ، مری مٹی کہاں کی ہے

داغ دہلوی

نئے کعبہ کی بنیادوں سے پوچھو

پرانے بت کدے کیوں ڈھا رہے ہیں

حفیظ جالندھری

کعبہ کو جا رہا ہوں ، نگاہ سوئے دیر ہے

پھر پھر کے دیکھتا ہوں ، کوئی دیکھتا نہ ہو

حفیظ جالندھری

حیرت ہے تم کو دیکھ کے ، مسجد میں اے خمارؔ

کیا بات ہو گئی ، جو خدا یاد آ گیا

خمار

دنیا بھلا چکی ، ہے مجھے یہ درست ہے

یہ تو نہیں ہے کہ ، بھول گیا ہے خدا مجھے

نامعلوم

کہاں جائے اٹھ کر بتوں کی گلی سے

یہیں سے ہے کعبہ کو ، سجدہ ہمارا

نامعلوم

نازکی تو مرے محبوب کی دیکھے کوئی

گل کو چھوتے ہی پڑے ہاتھ میں چھالے اس کے

اشوک ساہنی