گلہ-شکوہ

نہیں شکوہ مجھے کچھ ، بےوفائی کا تری ہرگز

گلہ تب ہو ، اگر تو نے ، کسی سے بھی نبھائی ہو

درد

سنے جاتے نہ تھے تم سے ، مرے دن رات کے شکوے

کفن سرکاؤگے ، میری بےزبانی دیکھتے جاؤ

ذوق

مجھ کو شکوہ ہے اپنی آنکھوں سے

تم نہ آئے تو نیند کیوں آئی

جگر

دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے جان پر

دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا

آتش

مٹایا ہے ہمیں نے اس کو ورنہ کیا سے کیا ہوتی

ہماری داستاں جتنا گلہ ہم سے کرے کم ہے

نامعلوم

کیا ضروری ہے کہ الفاظ میں اظہار کروں

مجھ کو آنکھوں سے بھی آتا ہے شکایت کرنا

اشوک ساہنی