حسن و عشق

عشق جب تک نہ کر چکے رسوا

آدمی کام کا نہیں ہوتا

جگر

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

میر

کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں

عشق توفیق ہے گناہ نہیں

فراق

مشکل تھا کچھ تو عشق کی بازی کا جیتنا

کچھ جیتنے کے خوف سے ہارے چلے گئے

شکیل

حسن کی جلوہ نمائی باعثِ آزار ہے

ایسا لگتا ہے کہ دنیا حسن کا بازار ہے

اشوک ساہنی