غمگسار-غمخوار

ہنسی آئی تو ہے بےکیف سی لیکن خدا جانے

مجھے مسرور پاکر میرے غمخواروں پہ کیا گزری

شکیل

مسرتوں میں برابر شریک تھے احباب

مگر نہ غم میں بن کے کوئی غمگسار آیا

بیتاب

یہ سوچ کر بھی ہنس نہ سکے ہم شکستہ دل

یارانِ غمگسار کا دل ٹوٹ جائے گا

شاد

مجھ سے اس بات پہ ناراض ہے دنیا ساری

میں نے کیوں کر کسی مظلوم کی غمخواری کی

اشوک ساہنی

ہم تو راضی نہیں تھے مرنے پر

غمگساروں نے مار ڈالا ہے

عدم

عید و دیوالی منانے سے کہیں بہتر ہے

ہم کسی مفلس و نادار کے ہمدم ہوتے

اشوک ساہنی