شیخ و برہمن

خشک باتوں میں کہاں اے شیخ! کیفِ زندگی

وہ تو پی کر ہی ملے گا ، جو مزہ پینے میں ہے

عرش

لڑتے ہیں جا کے باہر یہ شیخ اور برہمن

پیتے ہیں میکدے میں ساغر بدل بدل کے

مائل دہلوی

یاد آئی ہے خلد کی شاید

شیخ جی میکدے سدھارے ہیں

خمار

انسانیت کی بات تو اتنی ہے شیخ جی!

بدقسمتی سے آپ بھی انسان بن گئے

عدم

شیخ کی دعوت میں ، مے کا ذکر کیا

احتیاطاً کچھ منگا لی جائے گی

اکبر

شیخ مے کو حرام کہتے رہے

میں نے پی کر حلال بھی کر لی

اشوک ساہنی