توبہ

اب غرق ہوں میں آٹھ پہر ، مے کی یاد میں

توبہ نے مجھ کو اور گنہ گار کر دیا

جلیل مانک پوری

کروٹیں لیتی ہیں ، پھولوں میں شراب

ہم سے اس فصل میں ، توبہ نہ ہوئی

علی اختر

ساقیا! دل میں جو توبہ کا خیال آتا ہے

دور سے آنکھ دکھاتا ہے ترا جام مجھے

جلیل مانک پوری

نہیں معلوم اب کے سال ، مےخانے پہ کیا گزری

ہمارے توبہ کر لینے سے پیمانے پہ کیا گزری

یقین

ساغر ہیں آبدیدہ تو شیشے شکستہ دل

ہم توبہ کر کے آج پشیمان ہو گئے

جلیل مانک پوری

دیکھ پھر موسموں نے چھلکائی

مجھ کو توبہ کبھی نہ راس آئی

اشوک ساہنی