احساس

اتنا مایوس نہ ہو اے مرے زخمی احساس

لوگ کہتے ہیں ابھی کارِ رفو باقی ہے

شہبار ندیم

احساس مر نہ جائے تو انسان کے لئے

کافی ہے ایک بار کی ٹھوکر لگی ہوئی

نامعلوم

احساس سے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ

دامن بھی ، اسی تار سے ، بنتا ہے کفن بھی

نامعلوم

احساس کا ہر زخم نظر آتا ہے اس میں

رسوا مجھے آئینۂ اشعار نہ کر دے

نظمی سکندرآبادی

ڈرتا ہوں کہیں آپ کی بےلوث نوازش

خودداریٔ احساس کو مجروح نہ کر دے

شاد

بس یہ احساس کہ تو میرا ہے

مجھ کو ہر لمحہ سکوں دیتا ہے

اشوک ساہنی