تسلی-تسکین-سکون

دل کو اس طرح ٹھہر جانے کی عادت تو نہ تھی

کیوں اجل! کیا مرے نامے کا جواب آیا

فانی

ہم نشیں! کنجِ قفس میں مطمئن ہو کر نہ بیٹھ

ورنہ حرف آئے گا تیری جرأتِ پرواز پر

ماھرالقادری

سکوں جب سے ہے ، خطرہ دل کو ہر دم ہے

کہیں وہ پوچھ نہ بیٹھیں کہ آخر درد کیوں کم ہے

ناطق

چاہتا ہے تو اگر دل سے سکونِ دائمی

اپنے دشمن کی بجائے دشمنی کو ختم کر

اشوک ساہنی