مےکدہ-مےخانہ

زمانہ چھوٹ جائے ، تیرا مےخانہ نہ چھوٹے گا

کہ ساقی ترے مے نوشوں کو غداری نہیں آتی

شفیق

سمٹ آئی ہے تری آنکھوں میں

ساری مستی شراب خانے کی

ضیا فتح آبادی

اک درِ میکدہ ہے ، اے ساقی

اور جینے کی کوئی راہ نہیں

رام کشن مضطر

ترکِ مےخانہ گوارا نہ کروں گا ہرگز

راس ہے میری طبیعت کو یہاں کا پانی

جوش ملسیانی

کسی اک آدھ مےکش سے خطا کچھ ہو گئی ہوگی

مگر کیوں مےکدے کا مےکدہ بدنام ہے ساقی

نامعلوم

بہکے تو مےکدہ میں نمازوں پہ آ گئے

یوں عاقبت کو ہم نے سنوارا کبھی کبھی

ریاض

کہیں فکرِ دنیا کہیں فکرِ عقبیٰ

کہاں آ گئے مے کدہ سے نکل کر

داغ دہلوی

اتنا کہاں تھا ہوش کہ مسجد سدھارتے

واعظ نے مےکدہ میں مصلّیٰ بچھا لیا

نامعلوم