مےکدہ-مےخانہ

موسمِ گل میں عجب رنگ ہے مےخانے کا

شیشہ جھکتا ہے کہ منہ چوم لے پیمانے کا

نامعلوم

ترکِ مے کی ضد نے آخر طول کھینچا اس قدر

شیخ میرے ساتھ میخانے میں داخل ہو گئے

نامعلوم

ابھی کیا ہے کل اک اک بوند کو ترسے گا مےخانہ

جو اہلِ ظرف کے ہاتھوں میں پیمانے نہیں آئے

حفیظ میرٹھی

بہار آئی ہے بھر دے ، وعدۂ گلگوں سے پیمانہ

رہے لاکھوں برس ساقی ، ترا آباد میخانہ

نامعلوم

شیخ صاحب! ادھر تو ہے مسجد

میکدہ میں حیات بنٹتی ہے

اشوک ساہنی