آنکھ-چشم

بھری محفل میں ہر اک سے بچا کر

تری آنکھوں نے مجھ سے بات کر لی

فراق

اٹھ رہی ہے وہ آنکھ رک رک کر

قتل میں ہو رہا ہوں قسطوں میں

نامعلوم

ایک مدت سے آنکھ روئی نہیں

جھیل پایاب ہو گئی شاید

پروین شاکر

رہ گئے لاکھوں کلیجہ تھام کر

آنکھ جس جانب تمہاری اٹھ گئی

نامعلوم

کچھ روز یہ بھی رنگ رہا انتظار کا

آنکھ اٹھ گئی جدھر ، بس ادھر دیکھتے رہے

نامعلوم

مزہ برسات کا چاہو تو ان آنکھوں میں آ بیٹھو

سیاہی ہے ، سفیدی ہے ، شفق ہے ، ابرِ باراں ہے

نامعلوم

اس کے غم میں پھوٹ بہی ہے

آنکھیں ہیں یا گنگ و جمن

راشد حامدی

ہائے اس کی وہ مدھ بھری آنکھیں

ڈوب جانے کو دل مچلتا ہے

اشوک ساہنی