عبادت-بندگی

یہی ہے زندگی اپنی ، یہی ہے بندگی اپنی

کہ ان کا نام آیا اور ، گردن جھک گئی اپنی

ماھرالقادری

عبادت اس سے بڑھ کر ، اور کیا ہو

جبیں اپنی ، کسی کا نقشِ پا ہو

راز

تو نواز دے جو مجھ کو ، تو ترا کرم ہے ورنہ

تری رحمتوں کا بدلہ ، مری بندگی نہیں ہے

کامل

فضائے بندگی لاانتہا ، معلوم ہوتی ہے

کہ مجھ کو ہر حسیں صورت ، خدا معلوم ہوتی ہے

عدم

مقصود عبادت ہے ، فقط دید نہیں ہے

ہم پوجتے ہیں آپ کو ، دیکھا نہیں کرتے

ساغر نظامی

پارسائی پہ اگر ذکرِ خدا ہے موقوف

ایسی بےکیف عبادت مجھے منظور نہیں

جوش

جھکے ہوئے ہیں وہی مصلحت کے قدموں پر

وہ سر جو وقف رہے تری بندگی کے لئے

شاداں

حرم ہو ، دیر ہو یا میکدہ اس سے غرض کیا ہے

جہاں دیکھا ترا جلوہ وہیں میں نے جبیں رکھ دی

اشوک ساہنی