پیار-محبت-الفت

نصیبوں سے ملتا ہے ، دردِ محبت

یہاں مرنے والے ہی ، اچھے رہے ہیں

داغ دہلوی

مشکل تھا کچھ تو ، عشق کی بازی کو جیتنا

کچھ جیتنے کے خوف سے ، ہارے چلے گئے

شکیل

محبت کو سمجھنا ہے ، تو ناصح خود محبت کر

کنارہ سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا

نامعلوم

وقتِ رخصت جو مجھے ، پیار سے دیکھا تم نے

اس سے بڑھ کر ، مرا سامانِ سفر کیا ہوگا

جگر

اک لفظِ محبت کا ، ادنیٰ سا فسانہ ہے

سمٹے تو دلِ عاشق ، پھیلے تو زمانہ ہے

جگر

میں انساں ہوں ، مجھے انسانیت سے پیار ہے یارو!

فقط دیر و حرم کی پاسبانی میں نہیں کرتا

اشوک ساہنی