پھول اور کانٹے

کانٹوں سے دل لگاؤ ، جو تاعمر ساتھ دیں

پھولوں کا کیا جو سانس کی ، گرمی نہ سہہ سکیں

اختر شیرانی

غنچوں کے مسکرانے پہ ، کہتے ہیں ہنس کے پھول

اپنا کرو خیال ، ہماری تو کٹ گئی

نریش کمار شاد

اک سیج کا سنگار ، تو ارتھی پہ اک نثار

دو پھول ایک ساتھ ، کھلے تھے بہار میں

نامعلوم

پھولوں کے تو قابل نہیں ، شاید میرا دامن

اے صاحبِ گلشن! اسے کانٹوں سے ہی بھر دے

نامعلوم

کلی کوئی جہاں پر کھل رہی ہے

وہیں اک پھول بھی مرجھا رہا ہے

فراق

تاکہ چھو لے! اسے ہر اک بچہ

ہر کلی نے جھکا دی شاخ اپنی

اشوک ساہنی