دیر و حرم (مندر-مسجد)

مسجد میں اس نے ہم کو ، آنکھیں دکھا کے مارا

کافر کی شوخی دیکھو ، گھر میں خدا کے مارا

ذوق

مسجد کے زیرِ سایہ اک گھر بنا لیا ہے

اک بندۂ کمینہ ہمسایۂ خدا ہے

مرزا غالب

کیسے مسجد میں ، پیوں میں زاہد

ایک بوتل ہے ، خدا مانگ نہ لے

نامعلوم

نہیں معلوم ان کو جو ہمیں ، سمجھانے آئے ہیں

کہ ہم دیر و حرم ہوتے ہوئے ، مےخانے آئے ہیں

مہیندر سنگھ بیدی سحر

کعبہ میں بھی گیا ، نہ گیا ان بتوں کا عشق

اس درد کی ، خدا کے یہاں بھی دوا نہیں

یقین

حرم ہو ، دیر ہو یا مےکدہ ، اس سے غرض کیا ہے

جہاں دیکھا ترا جلوہ ، وہیں میں نے جبیں رکھ دی

اشوک ساہنی