جنت و جہنم

تیرا ملنا ، ترا نہیں ملنا

اور جنت ہے کیا ، جہنم کیا

جگر مرادآبادی

جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں

ایسی جنت کا ، کیا کرے کوئی

نامعلوم

جی کانپتا ہے خلد میں ، رکھتے ہوئے قدم

ڈر ہے کہ اس زمیں پہ بھی ، آسماں نہ ہو

مرزا غالب

گناہ گاروں کے دل سے ، نہ بچ کے چل زاہد

یہیں کہیں تری جنت بھی ، پائی جاتی ہے

نامعلوم

اک نیا دوزخ بنا کر ، جھونک دے ، تیار ہوں

جن سے تو ناراض ہے ، ان میں نہ شامل کر مجھے

آرزو لکھنوی

شیخ نے آتے ہی بزمِ مے کو برہم کر دیا

اچھی خاصی میری جنت کو جہنم کر دیا

اشوک ساہنی