در-دیوار-آستاں

دیوار کیا گری مرے ، خستہ مکان کی

لوگوں نے میرے صحن میں ، رستے بنا لئے

صبا

جھکا کر سر کو ، ترے آستاں پر

بڑھا دی میں نے قیمت سنگِ در کی

ساحر بھوپالی

وہی میری بدنصیبی ، وہی گردشِ زمانہ

ترے آستاں سے اٹھ کر ، نہ ملا کوئی ٹھکانہ

فراق گورکھپوری

بیتابیاں بجا مرے ، ذوقِ سجود کی

لیکن اس آستانہ کے لائق ، یہ سر کہاں

عرش ملسیانی

جو جھکا ہو کہیں ، تیرے آستاں کے سوا

مری جبیں کو تری ، بندگی نصیب نہ ہو

بسمل سعیدی

بیٹھ جاتی ہے وہیں ، ریت کی مانند اشوکؔ

جب بھی دیوار کوئی ، عزم سے ٹکراتی ہے

اشوک ساہنی