نقاب-حجاب-پردہ

میں اضطرابِ شوق کہوں ، یا جمالِ دوست

اک برق ہے ، جو کوند رہی ہے نقاب میں

اثر لکھنوی

ادا شناس بھی تھے ، عرصۂ قیامت میں

سمجھ کے آپ کو رخ سے نقاب اٹھانا تھا

صفدر مرزاپوری

دیکھ کر محفل میں ان کو بےحجاب

شدتِ غیرت سے ہم شرما گئے

مضطر

ہے ازل سے بےحجابی عشق کے دستور میں

شرم کیسی ، کیسا پردہ عاشقِ دلگیر سے

اشوک ساہنی