جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے

پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے

گھر کی ہر چیز کو خوشبو میں بسادیتا ہے

جب وہ آتا ہے گلابوں کو کھلادیتا ہے

ہم تو آزاد پرندوں کی طرح تھے لوگو

وقت شاید ہمیں مجبور بنادیتا ہے

رہبروں سے تو چمکتا ہوا جگنو اچھا

جو اندھیرے میں اجالوں کا پتہ دیتا ہے

دھڑکنیں ساز اٹھالیتی ہیں تنہائی میں

کوئی آواز میں آواز ملا دیتا ہے

پڑنے لگتی ہے شکن دھوپ کی پیشانی پر

جب بھی رستے میں کوئی پیڑ لگا دیتا ہے

ایک ہی نام فقط حمد کے لائق ہےاشوک

جو ہر اک زہر کو تریاق بنادیتا ہے

اشوک ساہنی

اشوک ساہنی

تخلص اشوک ساہنی