کیوں ہمیں موت کے پیغام دئے جاتے ہیں

یہ سزا کم تو نہیں ہے کہ جئے جاتے ہیں

ہم ہیں اک شمع مگر دیکھ کہ بجھتے بجھتے

روشنی کتنے اندھیروں کو دیئے جاتے ہیں

نشہ دونوں میں ہے ساقی مجھے غم دے یا شراب

مے بھی پی جاتی ہے آنسو بھی پئیے جاتے ہیں

ان کے قدموں ہی نہ رکھ سر کہ یہ ہے بے ادبی

پائے نازک تو سر آنکھوں پہ لئیے جاتے ہیں

تونے یہ زخم دئیے ہیں کہ الٰہی توبہ

پھر بھی ہم ہیں کہ ترا نام لئے جاتے ہیں

تجھ کو برسوں سے ہے کیوں ترک تعلق کا خیال

فیصلے وہ ہیں جو پل بھر میں کئے جاتے ہیں

آبگینوں کی طرح دل ہے غریبوں کہ شمیم

ٹوٹ جاتے ہیں کبھی توڑ دیئے جاتے ہیں

شمیم جونپوری

شمیم جونپوری

تخلص شمیم

شمیم کی دیگر غزلیں

کوئی زیادہ نظمیں شمیم سے دستیاب ہیں