جام چلنے لگے

جام چلنے لگے دل مچلنے لگے

انجم جھوم اٹھی بزم لہرا گئی

بعد مدت محفل میں وہ کیا آگئے

جیسے گلشن میں فصل بہار آگئی

ایک ہی صحن گل ایک ہی انجمن

کوئی دردآشنا کوئی نہ آشنا

سن کے روداد غم عشق برباد کی

روئی شبنم تو گل کو ہنسی آگئی

حسن جتنا ڈھکا اور دلکش ہوا

رنگ جتنا چھپا اور رنگیں ہوا

ان کی ترچھی نظر جس طرف اٹھ گئی

پھول بکھرا گئی رنگ برسا گئی

یہ چمن زندگی کا ہے یونہیں چمن

اس چمن میں بہار و خزاں کچھ نہیں

وہ نہ آئیں تو سمجھو وہ جو آئیں تو سمجھو بہار آگئی

شوق پینے کا اتنا زیادہ نہ تھا

ترک توبہ کا کوئی ارادہ نہ تھا

پر گھٹائوں نے اٹھ کر بہکا دیا

تو طبیعت بھی کمبخت للچا گئی

رنگ خوشبو،خوشبو،سحر،چاند ، تارے، کرن