نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے

پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے

آج انسان خدا خود کو سمجھ بیٹھا ہے

اس کو انسان بناؤ تو کوئی بات بنے

تیرگی بڑھنے لگی اپنی حدوں سے آگے

مشعلیں دن میں جلاؤ تو کوئی بات بنے

ہو جہاں عدل جہانگیری میسر سب کو

اک جہاں ایسا بناؤ تو کوئی بات بنے

میکدہ میں نظر آتے ہیں سبھی جام بدست

مجھ کو آنکھوں سے پلاؤ تو کوئی بات بنے

دھرم کے نام پہ خون کتنا بہاؤگے میاں

پیار کے جام لنڈھاؤ تو کوئی بات بنے

مسئلے خون خرابے سے نمپٹتے کب ہیں

پیار سے ان کو مناؤ تو کوئی بات بنے

ہو جو دنیا کے لئے امن و سکون کا ضامن

ایسا پیغام سناؤ تو کوئی بات بنے

جن کے ہونٹوں سے ہنسی چھین لی دنیا نے اشوکؔ

ان کو سینے سے لگاؤ تو کوئی بات بنے

اشوک ساہنی

اشوک ساہنی

تخلص اشوک ساہنی