نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں

ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں

اس دور بے ضمیر پر کیا تبصرہ کروں

لگتا ہے میرے عہد میں انسان ہی نہیں

کیسے رفو میں کہاں سے رفو کروں

دل بھی ہے میرا چاک گریبان ہی نہیں

روداد دل بھی ہے یہ غم کائنات بھی

میری غزل نشاط کا سامان ہی نہیں

برکت ہمارے رزق میں آئے گی کس طرح

گھر میں ہمارے جب کوئی مہمان ہی نہیں

اسلام کا پیام ہے امن و سلامتی

دہشت پسند صاحب ایمان ہی نہیں

اسلام تو سکھاتا ہے حب وطن اشوک

جو دشمن وطن ہیں مسلمان ہی نہیں

اشوک ساہنی

اشوک ساہنی

تخلص اشوک ساہنی