شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے

ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے

ہم سے دیوانے کہاں زاد سفر رکھتے ہیں

ساتھ چلنا ہے تو اسباب لٹا کر چلئے

عشق کا راستہ آسان نہیں ہوتا ہے

بازیٔ عشق میں جان اپنی لٹا کر چلئے

رات اندھیری ہو تو جگنو کی چمک کافی ہے

شرط اتنی ہے کہ احساس جگا کر چلئے

نفرت و بغض کا انجام برا ہوتا ہے

نفرت و بغض سے دامن کو بچا کر چلئے

رات سفاک ہے سورج کو نگل جاتی ہے

اپنی مٹھی میں ستاروں کو چھپاکر چلئے

ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ہے اشوک

اب چراغوں کی جگہ دل کو جلا کر چلئے

اشوک ساہنی

اشوک ساہنی

تخلص اشوک ساہنی