اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا

پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا

ہر زخم دل کو ہم نے سجایا ہے اس طرح

جگنو بنا دیا کبھی تارا بنا دیا

میں کس زباں سے شکر خدا کا ادا کروں

جس نے مجھے فراقؔ کا شیدا بنا دیا

اب کس کے در پہ جاؤں میں انصاف کے لئے

منصف نے قاتلوں کو مسیحا بنا دیا

جب بھی ہمیں محاذ سے آواز دی گئی

ہم نے لہو سے ہند کا نقشہ بنادیا

سارے جہاں کے درد کی آماجگاہ ہے

دل تو نے میرے پہلو میں اچھا بنادیا

اس کو خلوص کیسے نظر آئے گا اشوک

دشمن کو انتقام نے اندھا بنا دیا

اشوک ساہنی

اشوک ساہنی

تخلص اشوک ساہنی