یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے

وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے

مرا وطن تو رواداریوں پہ قائم ہے

یہ خاندان سلامت رہے تو اچھا ہے

مری زباں سے ہمیشہ ہی سچ نکلتا ہے

مری زبان سلامت رہے تو اچھا ہے

غرورِ علم نے مجھ کو زمیں سے چھین لیا

تری اڑان سلامت رہے تو اچھا ہے

رہِ وفا میں کوئی پیچ و خم نہیں ہوتا

یہی گمان سلامت رہے تو اچھا ہے

وہ آندھیاں ہیں ، مری جھونپڑی کی بات نہیں

ترا مکان سلامت رہے تو اچھا ہے

دیے کی لو کھیل کر رہی ہے اشوکؔ

چراغ دان سلامت رہے تو اچھا ہے

اشوک ساہنی

اشوک ساہنی

تخلص اشوک ساہنی