دل

دل جلوں سے دل لگی اچھی نہیں

رونے والوں سے ہنسی اچھی نہیں

ریاض

دل کے تئیں ، آتشِ ہجر سے بچایا نہ گیا

گھر جلا سامنے اور ہم سے بجھایا نہ گیا

میر

دل کی بربادیوں پہ نازاں ہوں

فتح پاکر شکست کھائی ہے

شکیل

ان کی آواز آ رہی تھی دل کے پاس

دیر تک کچھ گفتگو کرتے رہے

فانی

اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

اقبال

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

فیض

دل کی مفارقت کو ، کہاں تک نہ روئیے

اللہ ایک عمر کا ، ساتھی بچھڑ گیا

نامعلوم

ہائے اس کی وہ مدھ بھری آنکھیں

ڈوب جانے کو دل مچلتا ہے

اشوک ساہنی