یاد

میں آج صرف محبت کے غم کروں گا یاد

یہ اور بات ہے تیری بھی یاد آ جائے

فراق

سامنے تیرے جیسے کوئی بات

یاد آ آ کے بھول جاتی ہے

فراق

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

حسرت

چلو اچھا ہوا محرومیوں میں کٹ گئی اپنی

کسی کو یاد کیا کرتے ، کسی کو یاد کیا آتے

نامعلوم

جب کوئی تازہ مصیبت مجھ پہ آتی ہے خدا

ایک عادت ہے کہ تجھ کو یاد کر لیتا ہوں میں

کیفی اعظمی

دنیا نے تری یاد سے بیگانہ کر دیا

تجھ سے بھی دلفریب ہیں ، غم روزگار کے

فیض

اب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں

کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں

فراق

ہوش و ہواس یاد میں ، ان کی گنوا دئے

اب امتیازِ شام و سحر بھی نہیں مجھے

اشوک ساہنی