آنکھ

فریاد کر رہی ہے وہ ترسی ہوئی نگاہ

دیکھے ہوئے کسی کو زمانہ گزر گیا

نامعلوم

دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار

جب تک شراب آئے کئی دور چل گئے

نامعلوم

تیری تصویر بنائی تو تھی آنکھوں میں

بہہ کے اشکوں نے مٹا دی ہوگی

نامعلوم

تجھ سے آنکھیں جو ہوئیں چار ، تجھے کیا معلوم

چل گیا دل پہ مرے وار ، تجھے کیا معلوم

نامعلوم

بھری محفل میں ہر اک سے بچا کر

تری آنکھوں نے مجھ سے بات کر لی

نامعلوم

اٹھ رہی ہے وہ آنکھ رک رک کر

قتل میں ہو رہا ہوں قسطوں میں

نامعلوم

ایک مدت سے آنکھ روئی نہیں

جھیل پایاب ہو گئی شاید

نامعلوم

رہ گئے لاکھوں کلیجہ تھام کر

آنکھ جس جانب تمہاری اٹھ گئی

نامعلوم