زندگی-زیست-حیات

موت ہی انسان کی دشمن نہیں

زندگی بھی جان لے کر جائے گی

جوش ملسیانی

تمام زیست کی سنگینیوں سے لڑنا تھا

ملے ہی کیوں تھے اگر یوں بچھڑنا تھا

شہباز ندیم

اگر ممکن ہو ، تو سو سو جتن سے

عزیزو! کاٹ لو ، یہ زندگی ہے

فراق

گُر زندگی کے سیکھو ، کھلتی ہوئی کلی سے

لب پر ہے مسکراہٹ ، دل خون ہو رہا ہے

فراق

ایک ساغر پہ ہے موقوف ، اپنی زندگی

رفتہ رفتہ اس سے بھی ، کم کیا کریں

داغ دہلوی

موت کو تو ، زمانہ روتا ہے

ہم مگر ، زندگی کو روئے ہیں

نقش

وہ آئے ہیں ، پشیماں لاش پر اب

تجھے اے زندگی! ، لاؤں کہاں سے

مومن

آتے نہیں ہیں تنگ کبھی زندگی سے ہم

نزدیک غم کو رکھتے ہیں اپنی خوشی سے ہم

اشوک ساہنی