خدا -ناخدا

عبادت میں بھی رہتا ہے ہمیں موت کا کھٹکا

ہم یادِ خدا کرتے ہیں کہ کر لے نہ خدا یاد

اکبر الٰہ آبادی

جس کو جانا ہی نہیں ، اس کو خدا کیسے کہیں

اور جسے جان لیا ہو ، وہ خدا کیسے ہو

محسن احسان

پھر زمانہ میں ہر ایک سمت ، اندھیرا کیوں ہے

ہم چلو مان گئے ایک ، تجلی ہے خدا

فسیح اکمل

اس جبر پہ تو ذوقؔ ، بشر کا یہ حال ہے

کیا جانے کیا کرے ، جو خدا اختیار دے

ذوق

کھو گیا ہے وہ کہاں ، رزق کا دینے والا

کوئی روٹی جو کھڑا ، مانگ رہا ہے مجھ سے

جاں نثار اختر

ترے کرم کے بھروسہ پہ ، حشر میں یا رب

گناہ لایا ہوں ، اور بےحساب لایا ہوں

نامعلوم

کیسی مہلک خطا ہوئی ہم سے

ناؤ میں ناخدا سے لڑ بیٹھے

عدم

مانگے بنا ملی ہیں زمانہ کی نعمتیں

اب سوچتا ہوں مانگوں میں اپنے خدا سے کیا

اشوک ساہنی